Saturday, November 19, 2011

تعارفی نوٹنکی

تعارفی    نوٹنکی ۔۔۔۔۔۔اسکا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ۹ ٹینکیاں۔ بعض لوگوں کے من میں شاید یہ بات آئے کہ ۹ ٹینکیوں کے ایک مجموعے کا نام ہوگا۔ مگر برادران ایسا بلکل بھی نہیں ہے۔ ہمارے زہن میں یہ خیال ہمارے ایک ہر دل عزیزدوست کیوجہ سے آیا۔

ہمارے دوست "و" نے ہمارا بلاگ دیکھا تو بولے "ثاقب میاںیہ ۹ ٹینکیاں کیا چیز ہے بھئ؟"

اُس وقت تک ہم نے اپنے بلاگ کے حروفِ تہجی اردو میں نہیں لکھے تھے۔خیر وہ تو ابھی بھی نہیں لکھے۔
ہم اپنے دوست کی اس بات پر تھوڑے توقف کے بعد ہنس دیئے۔ کیونکہ ہم اسکے علاوہ کچھ کر بھی نہیں سکتے تھے۔

یہاں پر ہم اپنے ہر دل عزیزدوست"ع" کے بے حد مشکورہیں کہ جنکی بروقت راہنمائی نے اس بلاگ کوپائیہ تکمیل تک پہنچانے میں ہماری مدد کی۔ ان کی کئے قربانیاں ہیں میرے بلاگ کے لئیے جن میں سے چند درج ذیل ہیں۔
اس بلاگ کو بنانے میں کئی حادثات کا بھی سامنا کرناپڑا۔ ہواکچھ یوں کہ ہمارا دوست "ع" ، ہم اور "و" ایک ٹیکسی پر بیٹھے اپنی درسگاہ کوجا رہے تھے۔ ہمارا دوست"ع"حسبِ مامول سامنے(فرنٹ) سیٹ پر براجمان تھا۔ ہم اورہمارا دوست "و"پیچھے والی سیٹ پر بیٹھے ہوئے تھے۔ حالانکہ ہمارے دونوں دوستوں کی آپس میں زیادہ بنیتی ہے جتنی کہ ہم سے۔ کس کو پتہ تھا کہ یہ عارضی جدائی بھی کس طوفان کا پیش خیمہ ثابت ہوگی۔ ہمیں اندازہ تو تھا کیونکہ ہم ہوا کے گرم تھپیڑوں سے آنے والے اس وقت کو محسوس کر سکتےتھے ۔ وہ بھیانک منظر ہماری آنکھوں کے گرد دھواں بن کر ناچنے لگا۔ خطرے کی بو سونھگتے ہوئےہم نے ٹیکسی رکوانا چاہی۔ مگر اسی اثنا میں ہمارے ایک خاص دوست " ا " کی کال آ گئی۔ ہم مصروف ہو گئے۔

کسی کو کیا پتہ تھا کہ ایک چلتی پھرتی مشین یعنی ٹیکسی بھی ان دو دوستوں کی جدائی کو برداشت نہ کر پائے گی۔ ہمارے مطابق ٹیکسی رکنا چاہتی تھی تا کہ کسی طریقے سے ہمارے دوستوں کی اس جدائی کو ختم کیا جا سکےاور دونوں ایکساتھ بیٹھ سکیں۔ کیونکہ گاڑیوں کے پاس انسانوں کیطرح سوچنے کیلئے دماغ نہیں ہوتا۔ چنانچہ گاڑی نے ایک انوکھا طریقہ نکالا اور سید ہی جا کر ایک گدھا گاڑی کے پیچھے "ٹھا کر کے وج" گئی۔خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ ہم تینوں بچ گئے۔ ہم نے آفیت اسی میں سمجھی کہ اس ٹیکسی سے جان چھڑائی جائے۔ ہم تینوں ٹیکسی سے اتر گئے۔ اور یوں "ع" اور"و " کا قصہ ختم ہوا۔ ورنہ دونوں کے ساتھ ساتھ ہمارا بھی "ع"۔۔"و"۔۔"ہ"۔۔۔"حمزہ" ہو جاتا۔ اور ہمارا بلاگ ۔۔۔۔آئے ہائے ۔۔۔آئے ہائے ۔۔۔۔کہاں بن پاتاجی۔

ایک اور واقعہ کچھ یوں ہے کہ ہم اور ہمارا دوست "ع" سڑک کے کنارے پیدل چل کر اپنی درسگاہ سے واپس آ رہے تھے۔ اچانک بے مہار گھوڑے کی طرح ایک پھٹ پھٹیہ فراٹے بھرتی ہمارے دوست کو چھوتے ہوے گزر گئی۔ ایک دفعہ پھر خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ ہمارا دوست بچ نکلنے میں کامیاب ہو گیا۔ورنہ ۔۔۔۔ہائے ہمارے بلاگ کا جنازہ بھی ساتھ ہی اٹھ جاتاخدا نخواستہ۔۔۔ہائے۔۔۔ہائے۔۔۔ہمارے دل میں تو ابھی بھی ہول اٹھ رہے ہیں۔ "میں وی بلاگ دی نال ای جانا اے" کی آوازیں ہما رے من میں دھمالیں ڈال رہی ہیں۔

بلاگ لکھتے لکھتے یاد ہی نہیں رہا کہ اسائینمنٹ بھی مکمل کرنی ہے۔سوچ رہےہیں پہلے بازار سے جا کر سٹیشنری ہی خرید لائیں۔اوہوابھی توباباجی سے اپنے بلاگ کی لمبی زندگی اورمقبولیت کی دعا بھی کروانی ہے۔ اور اسکے لئیے ایک عدد تعویز بھی لینا ہے نظر کا۔پر سوچتے ہیں اپنے بلاگ کو پہنائیں گے کیسے۔۔۔۔۔؟ خیر آپ لوگ ہمارا بلاگ باقائدگی سے پڑہتے رہیے گا ہو سکتا ہے چند دن میں ہم اپنے بلاگ پر تعویز لٹکا نے میں کامیاب ہوسکیں۔ خدائے پامان۔۔۔۔۔



گامے ماجے

دروازے پے دستک ہوئی۔ میں ایک دم چونک پڑا۔ رات کے ایک بجے میرے ہوسٹل کے کمرے کا دروازے کون کھٹکھٹا سکتا ہے۔ خیر میں دروازے کی طرف لپکا۔
"اوئے اسلم کے بچے تو کہاں سے آٹپکا۔۔۔وہ بھی اتنی رات کو۔۔۔"۔ "او بھائی اندر تو آنے دے۔ اتنی دور سے آیا ہوں ۔۔۔نہ سلام نہ دعا ۔۔۔او تیرے پنڈسے ہی آیا ہوں ، تم تو ایسے بات کر رے ہو جیسے میں کوئی چور ہوں ۔"۔۔۔"او اچھا اچھا۔ چل آ جا اب اندر۔ ۔۔پتہ نئی یہ پینڈو کہاں سے منہ اٹھا کے آجاتے ہیں(میں نے دل میں کہا("
میں فوراً سو گیا۔ اسکی پرواہ کیے بغیر کے وہ کب سوئے گا۔ اسلم میرے گاؤں کا لڑکا ہے۔ تھوڑا انپڑھ سا ہے۔ اسکے انپڑھ ہونے کی بڑی وجہ اسکے باپ کا انپڑھ ہونا ہے۔ اسلم کا باپ کھیتی باڑی کرتا ہے۔ اسنے اسلم کو بھی اپنے ساتھ کام پر لگا لیا۔

صبح ہوئی تو میں نے اس سے لوچھاکہ یہاں اسلا م آباد کیا کرنے آیا ہے؟وہ بولا"۔۔۔"ہی ہی ہی۔۔۔۔وہ میں نا وہ ۔۔۔فیصل مسجد دیکھنے آیا ہوں"۔۔۔"او بس اس کام کیلئے تم اتنی دور سے آئے ہو۔ وہاں  کوئی مسجد نہیں ہے کیا۔۔"۔۔۔"نہیں یار وہ دراصل نا ہماری گنے کی فصل اس دفعہ بڑی اچھی ہوئی ہے۔تو میں نے ابے سے بولا تھا کہ فصل اچھی ہوئی تو اسلام آباد کی سیرکرنے جاؤں گا میں اور فیصل مسجد بھی دیکھوں گا
" اچھا فلحال تو مجھے یونیورسٹی جانا ہے۔ شام کو لے جاوں گا تم کو فیصل مسجد دکھانے "۔۔"نہیں نہیں ابے نے کہا تھا کہ جبتک یہاں رہوں تیرے ساتھ ہی رہوں "۔۔۔"اچھا اچھا ۔۔۔چل میرے ساتھ، پر ایک بات کان کھول کے سن لو وہاں جا کر یہ پینڈؤں کیطرح فیصل مسجد کی رٹ نہ لگانا۔"۔۔"اچھا یار نہیں لگاتا۔ جب سے آیا ہوں ڈانٹ ہی رےہو

میں اسکو ساتھ لے کر جانے پر رضامند تو ہو گیا پر دل ہی دل میں اسے بھگانے کے پلینز بنا رہا تھا۔اسلم کے ساتھ میری کوئی ذاتی دشمنی نہیں تھی پر میں ٹھہرا پڑھا لکھا گریجویٹ اور وہ انپڑھ۔ میرا امج متاثر ہو سکتا تھا۔ خیر میں اسے لے کر اپنی یونیورسٹی آ گیا۔
ہم ایک کوری ڈور(راہداری) سے گزر رہے تھے تو اسلم بولا "یار یہ بابوں کی تصویریں کس خوشی میں لگی ہوئی ہیں ؟؟۔ویکھو ذرا ینے لمبے لمبے بال اور کچھ بیچاروں کوتو نصیب ہی نہیں ہوئے۔ ویسے آپس کی بات ہے ان لوگوں کارنگ گورا نہ ہوتا نا تو یہ بھی ہمارے پنڈ میں گامے ،ماجے، پھتو، رہمہ جھلا ،ھاشو لنگہ اوربوٹے جیسے ہی دکھتے ہیں یار۔۔۔ہی ہی "

ویسے آپس کی بات ہے ان لوگوں کارنگ گورا نہ ہوتا نا تو یہ بھی ہمارے پنڈ میں گامے ،ماجے، پھتو، رہمہ جھلا ،ھاشو لنگہ اوربوٹے جیسے ہی دکھتے ہیں یار۔۔۔ہی ہی "
"او بھائی پتہ بھی ہے کہ تم کن عظیم لوگوں کو اپنے ان پڑھ پینڈؤں سے ملا رہے ہو۔۔۔۔یہ دیکھو یہ ہے ولبر رائٹ،اسنے جہاز بنایا تھا"۔۔۔میری بات کاٹ کر اسلم بولا"چل اؤے جھوٹ نہ بول۔۔ہمارے پنڈ میں تو بالی بٹ کی ایک کُپی سے جو چاہے جہاز بن سکتا ہے۔۔۔۔ہی ہی ہی"۔
نہ چاہتے ہوئے بھی میری ہنسی نکل گئی ۔ پر دل ہی دل میں سوچ رہا تھا کہ کس جاہل سے واسطہ پڑ گیا ہے۔ "ابے یار میں وہ والے جہاز کی بات نہیں کر رہا۔میں ہوائی جہاز کی بات کر رہا ہوں۔اچھا یہ دیکھ آگے،یہ نیوٹن ہے۔ ۔۔ "۔ میں بول ہی رہا تھا کہ اس نے میری بات کاٹ دی اور بولا"یہ بابا کندی پٹاکے تو نہیں بناتا،ہی ہی ہی او ہمارےپنڈ میں چاچا رفیق بلکل اسی طرح کا ہے بس وہی نااسکا رنگ چٹا ہے۔۔ "۔۔۔"اوئے اب اگر تو بیچ میں بولا نہ پھر دیکھ تو۔ جاہل نہ ہو تو"۔۔۔"او اچھا اچھا غصہ تو نہ کر میرے بھائی۔۔۔۔۔۔"۔۔۔"پتہ نہیں کہا ں سے ایسی باتیں سیکھتا رہتا ہے تو"۔۔۔"یار سٹیج ڈرامے نہیں ہوتے اس میں اسطرح ہی ہر بات میں بولتے ہیں،او بڑا ہی ہا سا آتا ہے یار۔ تم نے کبھی نہیں دیکھے؟؟؟"۔۔۔"جی نہیں میں ایسی چیپ چیزیں نہیں دیکھتا۔ تو پھر تو کیا دیکھتا ہے ؟؟ لگتا ہے تو ہستا کھیڈتا نہیں ہے، اسی لیئےتیرا منہ بنا رہتا ہے ہر ٹیم،سڑی روٹی کیطرح۔۔۔ہی ہی۔۔ہی ہی۔۔ہی ہی"۔۔"اسلم کے بچے چپ کرتا ہے کہ۔۔۔ایک دو ں ۔۔"۔۔"ہلا ہلا یارہو گیا چپ۔۔"

اسلم پھر بولنے لگا"او یار یاد آیا۔ اگلے دن میں اپنے یار کے گھر کمپوٹر پرڈرامہ ویکھ ریا تھا۔ او باوا جی خشبو نے جیڑا ڈانس کیتا اے۔۔۔آئے ہائے ہائے۔ "۔۔"مجھے ان خوشبوؤں سے کو ئی غرض نہیں ہے یار۔"۔۔"میرا بھرا سن تو سئی نا۔۔۔او جھلیا دیدار وی تھی اس میں ۔۔ہی ہی۔۔ہی ہی۔۔ہی ہی"۔۔"بس چپ اس سے آگے کچھ نہ بولیں ، میں تجھے یہاں اتنے بڑےبڑے سائنسدادنوں کے بارے میں بتا رہا ہوں اور تو واہیات بولی جا رہا ہے۔۔ "۔۔۔"یار اچھا ناراض مت ہو میرے بھائی۔ میں نے بھی تجھ سے ایک سینس دان کا ای پوچھنا ہے۔" میں قدرے طنزاً بولا"ہا ہا ہا۔۔۔سائنسدان اور تم۔خیر پوچھو، پر یاد رہے کوئی پھتو شتو یا کوئی جگت نہیں چلے گی۔"۔۔۔"اچھا یار۔ سن تو سہی۔ یار اس سینسدان کا بتا مجھے او جس نے دھواں جوڑ کے بندا بنا یا ہے یار۔"۔۔"پھر وہی جگتیں۔۔"۔۔۔"نہیں یار سہی سہی کا پوچھ رہیا ہوں میں۔ "۔۔۔۔"مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا کہ تو کیا اول فول بکی ہی جا رہا ہے جب سے تجھے یہ سب دکھا رہا ہوں ، چل اوئے تجھے تو ہإسٹل چھوڑ کے
آوٗ ں۔ "۔۔۔۔اسلم بولا"کمال ہو گیا یار میں تیرے سے سہی با ت کر ریا ہوں اور تو ہے کہ سن ہی نہیں رہا۔ اللہ دی کسمے ، ڈرامے میں وہ بول ریا تھا کہ ، صدقے جاواں ڈاکٹر قدیر دے، جنے دھواں جوڑ کے بندا بنا دتا اے۔۔۔اوکالا آتاہے ناسٹیج ڈرامے میں اسے بول ریا تھا۔۔۔"
"اچھا تو تم ڈاکٹر قدیر کےبارے میں پوچھ رہے ہو، اچھا چل دکھا تا ہوں تمھیں"۔۔۔۔۔میں نے ساری تصاویر دیکھ ڈالیں پر ڈاکٹرقدیر کی تصویر دیوار کےکسی بھی کونے پر نذر نہیں آئی مجھے۔۔۔۔آج پہلی دفعہ میں نے غور کیا کہ میری یونیورسٹی میں ڈاکٹر قدیر کی ایک بھی تصویر نہیں لگی ہوئی۔ میں گہری سوچ میں گم ہو گیا۔ اسلم مجھے چپ دیکھ کے معنی خیز نذروں سے مجھے دیکھنے لگا۔ میں نے ارادہ کیا کہ مجھےخاموشی سے اسلم کو فیصل مسجد لے جانا چاہیے۔ میں نے فوراًٹیکسی پکڑی اور ہم فیصل مسجد روانہ ہو گئے۔ سارے راستے میں اس سے کچھ نہیں بولا۔ اور یہی سوچتا رہا کہ میں اتنے سٹینڈرڈ کے ادارے میں پڑھتا پھر رہا ہوں، کیا اس ادارے کا اتنا ہی گرا ہو اسٹینڈرڈ ہے کہ دنیا جہاں کے سائنسدانوں کی تصاویر آویزاں ہیں پر ہمارے قومی ہیرو ڈاکٹر قدیر کی تصویر کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ آج کے بعد میرے لئیے بھی یہ سب کے سب گامے ، ماجے، پھتو، ہاشو لنگےاور بوٹے ہی ہیں۔
(خیر میں نے اسلم کے چلے جانے کے بعد بازار سے ایک جگتوں بھرا ڈرامہ خریدا، اور ڈاکٹر قدیر کے حوالے سے وہ جگت بھی سن لی۔لیکن اسلم نے ایک با ت۱۰۰ فیصدسہی بولی تھی بھلا وہ کیا؟؟؟؟؟
خشبو نے جیڑا ڈانس کیتا اے۔۔۔آئے ہائے ہائے۔۔۔۔)


Pageviews