میٹرو بس اور ریسٹ آف دی پنجاب
Lahore Metro Bus |
چیف منسٹر پنجاب جناب شہباز شریف نے 10 فروری 2013 کو میٹرو بس کا افتتاح کیا۔ اس میں وہ بذاتِ خود بھی موجود تھے اور بہتیرے ملکوں کے سفارتی ترجمانوں کو بھی مدعو کیا گیا تھا۔ بڑی شان و شوکت سے اس بس کا افتتاح کیا گیا۔ اور بلا کے دعوے کیے گئے۔ ایک مہینہ مفت سفرکرنے کی بھی نوید سنائی گئی۔ مگر یہ نوید ، نویدِ سعید ثابت نہ ہو سکی اور صرف ایک ہفتہ چلنے کے بعد ہی دم توڑ گئ۔
میٹرو بس سروس پر کم و بیش 27 ارب روپیہ جھونک دیا گیا۔ پورے پنجاب کے ترقیاتی فنڈز کو میٹرو بس کی نظر کر دیا گیا۔ جسطرح پرانے زمانے میں لوگ دیوتاؤں کو بری چڑہاتے تھے اسی طرح جیف منسٹر صاحب اور انکے قریبی ساتھیوں نے پورے پنجاب کو نظر انداز کر کے ، سارے کا سارا پیسہ میٹرو بس کی بر ی چڑھانے پر لگا دیا۔
اوریامقبول جان جو کہ پاکستان کے ایک بلند پایا محقق ہیں ایک جگہ لکھتے ہیں کہ جن قوموں نے اپنے لوگوں کو میٹرو بس کا تحفہ دیا ہے ان کے حکمرانوں نے پہلے اپنے لوگوں کی بنیادی ضرورتوں کو پورا کیا ہے۔ یعنی بھوک، افلاس، بے روزگاری ،صحت کی سہولیات اور لوگوں کو رہائش کی اچھی سہولیات۔ مگر ہمارے حکمرانوں نے 27 ارب روپیہ ایک بس سروس پر لگا دیا۔
گو کہ یہ اپنی طرز کا ایک اچھوتا اور نیا پراجیکٹ ہے، مگر کیا اس کا حق صرف اور صرف لاہور شہرکو ہی حاصل ہے ؟ کیا لاہور شہر کے علاوہ پورا پنجاب چیف منسٹر صاحب کو نطر نہیں آتا؟ میرا تعلق پنجاب کے ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ سے ہے۔ ہمارے ڈپارٹمنٹ کو فنڈمہیہ نہیں کیے جارہے۔ بیس فیصد انکریمنٹ جو کہ وفاق نےا علان کیا اس پر تا حال کوئی عمل درآمد نہیں ۔ جس کالج میں میری تقرری کی گئی ہے اس میں ساما ن پورکیا آدھے سے بھی کم مہیہ کیا گیاہے ۔ نااساتذہ کا حق انکو مل رہا ہےاور ناہی طالب علموں کو ۔ اور کہا یہ جاتا ہے کہ طالبعلموں کو معیا ری تعلیم دی جائے۔ ان حالات میں معیاری تعلیم مہیا کرنا نا ممکن سی بات نظر آتی ہے ۔
یہ توصرف ایک چھوٹے سے کالج کی تصویرمیں نے آپکے سامنے پیش کی ہے۔ ناجانے پنجاب کے کتنے ہی کالج، اسکول اس وقت توجہ کے حامل ہیں۔ مگر حکومتِ وقت نے اپنی تمام تر توجہ ایک شہر کی 27 کلومیٹر سڑک پر مرکوز کر رکھی ہے۔
اتنی رقم میں توانائی کا کوئی منصوبہ شروع کیا ہوتا تو جو فیکڑیاں بند پڑی ہیں ان میں مزدوروں کو روزگار ملتا، غریب لوگ گرمیوں میں کم از کم پنکھا لگا کر تو سو سکتے تھے۔ صحت کی سہولیات کو موثر بنایا جسکتا تھا۔ تعلیم کے شعبے کو پروان چڑھایا جاسکتا تھا۔ مگر ہوا کیا کہ پورا پنجاب ایک طرف اور 27 کلومیٹر ایک طرف۔
کاش چیف منسٹر صاحب کو احساس ہو جاتا کہ لاہور کے علاوہ بھی پنجاب ہےاور انکی بنیادی ضروریات ایک 27 کلومیٹر کی سڑک سے پوری ہونے والی نہیں۔
No comments:
Post a Comment