Thursday, February 21, 2013

میٹرو بس اور ریسٹ آف دی پنجاب

 میٹرو بس اور ریسٹ آف دی پنجاب

Lahore Metro Bus


چیف منسٹر پنجاب جناب شہباز شریف نے 10 فروری 2013 کو میٹرو بس کا افتتاح کیا۔ اس میں وہ بذاتِ خود بھی موجود تھے اور بہتیرے ملکوں کے سفارتی ترجمانوں کو بھی مدعو کیا گیا تھا۔ بڑی شان و شوکت سے اس بس کا افتتاح کیا گیا۔ اور بلا کے دعوے کیے گئے۔ ایک مہینہ مفت سفرکرنے کی بھی نوید سنائی گئی۔ مگر یہ نوید ، نویدِ سعید ثابت نہ ہو سکی اور صرف ایک ہفتہ چلنے کے بعد ہی دم توڑ گئ۔

میٹرو بس سروس پر کم و بیش 27 ارب روپیہ جھونک دیا گیا۔ پورے پنجاب کے ترقیاتی فنڈز کو میٹرو بس کی نظر کر دیا گیا۔ جسطرح پرانے زمانے میں لوگ دیوتاؤں کو بری چڑہاتے تھے اسی طرح جیف منسٹر صاحب اور انکے قریبی ساتھیوں نے پورے پنجاب کو نظر انداز کر کے ، سارے کا سارا پیسہ میٹرو بس کی بر ی چڑھانے پر لگا دیا۔

اوریامقبول جان جو کہ پاکستان کے ایک بلند پایا محقق ہیں ایک جگہ لکھتے ہیں کہ جن قوموں نے اپنے لوگوں کو میٹرو بس کا تحفہ دیا ہے ان کے حکمرانوں نے پہلے اپنے لوگوں کی بنیادی ضرورتوں کو پورا کیا ہے۔ یعنی بھوک، افلاس، بے روزگاری ،صحت کی سہولیات اور لوگوں کو رہائش کی اچھی سہولیات۔ مگر ہمارے حکمرانوں نے 27 ارب روپیہ ایک بس سروس پر لگا دیا۔

گو کہ یہ اپنی طرز کا ایک اچھوتا اور نیا پراجیکٹ ہے، مگر کیا اس کا حق صرف اور صرف لاہور شہرکو ہی حاصل ہے ؟ کیا لاہور شہر کے علاوہ پورا پنجاب چیف منسٹر صاحب کو نطر نہیں آتا؟ میرا تعلق پنجاب کے ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ سے ہے۔ ہمارے ڈپارٹمنٹ کو فنڈمہیہ نہیں کیے جارہے۔ بیس فیصد انکریمنٹ جو کہ وفاق نےا علان کیا اس پر تا حال کوئی عمل درآمد نہیں ۔ جس کالج میں میری تقرری کی گئی ہے اس میں ساما ن پورکیا آدھے سے بھی کم مہیہ کیا گیاہے ۔ نااساتذہ کا حق انکو مل رہا ہےاور ناہی طالب علموں کو ۔ اور کہا یہ جاتا ہے کہ طالبعلموں کو معیا ری تعلیم دی جائے۔ ان حالات میں معیاری تعلیم مہیا کرنا نا ممکن سی بات نظر آتی ہے ۔






 یہ توصرف ایک چھوٹے سے کالج کی تصویرمیں نے آپکے سامنے پیش کی ہے۔ ناجانے پنجاب کے کتنے ہی کالج، اسکول اس وقت توجہ کے حامل ہیں۔ مگر حکومتِ وقت نے اپنی تمام تر توجہ ایک شہر کی 27 کلومیٹر سڑک پر مرکوز کر رکھی ہے۔ 

اتنی رقم میں توانائی کا کوئی منصوبہ شروع کیا ہوتا تو جو فیکڑیاں بند پڑی ہیں ان میں مزدوروں کو روزگار ملتا، غریب لوگ گرمیوں میں کم از کم پنکھا لگا کر تو سو سکتے تھے۔ صحت کی سہولیات کو موثر بنایا جسکتا تھا۔ تعلیم کے شعبے کو پروان چڑھایا جاسکتا تھا۔ مگر ہوا کیا کہ پورا پنجاب ایک طرف اور 27 کلومیٹر ایک طرف۔



کاش چیف منسٹر صاحب کو احساس ہو جاتا کہ لاہور کے علاوہ بھی پنجاب ہےاور انکی بنیادی ضروریات ایک 27 کلومیٹر کی سڑک سے پوری ہونے والی نہیں۔




Saturday, February 16, 2013

A Trip to HEC




 "جی امی پہنچ گیا ہوں ۔۔۔۔"
"جی بھائی ابھی ابھی پہنچی ہوں۔۔۔"
"جی جانوں " ایچ ایٹ "آیا ہوں۔اسلام آباد۔ وہ اٹیسٹیشن کروانی تھی نا۔ رات کو بتایا بھی تھا آپکو۔۔۔۔ "
"آپ بے فکر ہو جائیں میں واپسی پر سبزی لیتاا آوں گا۔ اور کوئی چیز تو نہیں منگوانی بیگم۔ ۔۔۔۔۔"
"جی پاپا "انکل زیڈ" کو فون تو لگا رہا ہوں مگر وہ فون اٹھا نہیں رہے۔ ۔۔۔ "
 

"بھائی یہ اٹیسٹیشن کے لئے اتنی لمبی لائن لگی ہوئی ہے؟" ہم جو کہ بڑہے انہماک سے مختلف آوازوں کو ابزرو کر رہے تھے ، ایک لمبی آہ بھر کر بولے "جی۔۔۔۔۔"
ہم آج حکومتِ پاکستان کے بنائے گئے وفاقی ادارہ برائے اعلی تعلیمی کمیشن کے دفتر حاضر ہوئے تھے۔ کہانی وہی پرانی۔ لمبی لائن، ٹوکن، اوپر سے بارش اور بہت زیادہ ٹھنڈ۔ گیٹ کے پاس لڑکیوں کی بھی ایک چھوٹی سی لائن موجود تھی۔مگر ستم ظریفی یہ کہ ہم اتنی لمبی لائن کے آخری سرے پر تھے۔ یعنی گیٹ سے کافی دووووررررر۔ ۔۔مگر ایک انسان یہاں نظر نہیں آرہا تھا وہ تھا ایجنٹ جو کہ ہر بڑے وفاقی ادارے کے باہر موجود ہوتا ہے۔ جیسے کہ پاسپورٹ دفتر اور شناختی کارڈ دفتر۔
 

لائن میں کھڑے ہوئے 2 گھنٹے ہوگئے۔ کہ اچانک چوکیدار کی آواز آئی۔ آج کے ٹوکن ختم ہوگئے ہیں۔ جو گیٹ کے باہر لوگ ہیں وہ چلے جائیں۔ اب کل آئیے گا۔ یہ سننا تھا کہ ہمارےرونگٹے کھڑے ہوگئے۔ ہمارے کیا ہمارے ساتھ کھڑے کو ایک سو لوگوں کے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ ہم اکیلے ہوتے تو ٹھیک تھا اب سو کے سو لوگوں کے رونگٹے کھڑے ہوناوہ بھی ایک ساتھ انتہائے تشویشناک بات ہے۔ آپ اندازہ لگائیں کہ ایک ساتھ سو رونگٹے کھڑے ہوں تو کیسا منظر ہوگا۔ خیر ہم نے چوکیدا ر سے بہتیرا کہا کہ ہمیں اندر جانے دیا جاے مگر مجال کہ اسنےماتھے پر جوں تک رینگنے دی ہو۔ وہ حضرات جو مقامی تھے اپنا سا منہ لیے جلتے بنے۔ ہم کیونکہ 200 کلومیٹر کا سفر تہ کر کے آئے تھے کھڑے رہے کہ کیا پتہ داروغہ جی کو ہم پر رہم آجائے اور ہمیں بھی ان دیواروں میں قید کرلے جو کہ ایچ ای سی کےاحاطے میں آتی ہیں۔ آج پہلی دفعہ دل کیا کہ اپنی آزادی کو پسِ پشت ڈال کر ہم اپنے آپکو ایچ ای سی کی قید میں دے دیں۔ مگر ہماری فریاد کسی نے نہیں سنی۔ کچھ بیچارے تو 500 سے 800 کلو میڑی تک کا سفر طے کر کے آئے تھے۔ اسی اثنا میں ایک باوردی ملازم آتا ہے، داروغی جی اس کے لئے فورن دروازہ کھولتے ہیں، وہ اندر داخل ہوتا ہے، اسے پرائآرٹی بیس پر کمپیوٹر سیکشن میں بھیج دیا جاتا ہے۔ وہ ونڈو نمبر ایک پر جاتا ہے، پھر ونڈو نمبر 2 پر پھر آخری ونڈو پر اور یوں بمشکل 10 منٹ کے اندر اندر اپنا کام سمیٹ کر واپس چلا جاتا ہے۔ ہماری ناقص عقل میں یہ بات نہیں آئی کہ ایسا کیوں ہوا۔ کافی دیر سوچتے رہے پھر یہ بات سمجھ آئی کہ اس نے شائد واپس جاکر ملکی سرحدوں کی حفاظت کرنا تھی اس لئے جلدی جلدی کام نمٹا کر چلتا بنا۔
 


4 سال محنت کر کے ہم یوں خوار ہو رہے تھے۔ اور اس ملک میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو ایم این اے اور ایم پی اے کی سیٹ پر براجمان ہیں وہ بھی کس جیچز کے بل بوتے پر، ایک جعلی ڈگری لے کر۔ جب اس ملک میں محنت کر کے ڈگری لینے والوں کی یوں ہی تذلیل ہوتی رہے گی اور وہ بھی اس ملک کے اپنے تصدیقی ادارے سے تو اس ملک کی نوجوان نسل میں فرسٹریشن کے سوا کچھ بھی پیدا نہیں ہو سکتا۔










Pageviews