Wednesday, December 12, 2012

میں، میرا گاؤں اور اسکول

ہمیں بہتیرا کہا گیا۔ ہم نہیں مانے۔دوست یارسب نے کہا کہ یار صرف ایک بار۔ہم نہیں مانے۔اور تواوررانی نے بھی کٹی کردی پر ہم نہیں مانے۔ (رانی ہماری گائے کا نام ہے)

مگر آج ہم مان گئے۔ماننا پڑا۔۔۔مجبور ہوگئے۔۔۔آدھا کلوپکوڑے لیے،ساتھ گرم گرم چائےاورآخرکارلکھنےبیٹھ ہی گئے۔اب سمجھ نہیں آرہا کہ لکھیں کیا۔موسم کی انگڑائی یا ٹب میں پڑے میرے گندے کپڑوں کی دھلائی، نوکری کے بارے یا پھر چھوکری کے بارے، شہری یا پھر پینڈو الغرز اس دماغ کے کھوکھلے خانوں میں مجال ہے جو کوئی کراَیٹو خیال چھو کے بھی گزررہا ہو۔

  پچھلے دنوں ہم اپنی جائےپیدائش یعنی اپنے گاؤں گئے۔ہمارے گاؤں کا نام "حاصلانوالہ"ہے۔ اس کے چار صوبے ہیں۔ پنجاب،سندھ،سرحد اور بلوچستان۔۔۔۔۔۔اوہ معاف کیجئےگا۔بچپن میں پڑھا تھا وہ رٹا رٹایا ذہن میں آگھسا۔۔۔۔ تو بات گاؤں کی ہورہی تھی۔تھوڑا تعارف کرواتا چلوں۔ یہ تحصیل پھالیہ، ضلع منڈی بہاؤالدین میں واقع ہے۔ گاؤں میں داخل ہوتے ہی پرانی یادیں تازہ ہوگئیں۔کیونکہ میرےبچپن کا ابتدائی حصہ اسی گاؤں میں گزرا۔

گاؤں کے آغازمیں ہی ایک مڈل اسکول ہے۔ ہم نے ابتدائی تعلیم اسی اسکول سے حاصل کی۔ وہ دن بھی کیا دن تھے جب ہم اسکول سے بھاگ جایا کرتے اور گھربتاتے کہ ہماری کلاس کو آدھی چھٹی ہوگئ ہے۔اُن دنوں نرسری اور پریپ کانعم البدل بلترتیب کچی  اور پکی جماعت ہوا کرتی تھی، کچی جماعت کو آدھی چھٹی ہو جایا کرتی،ہم پکی جماعت میں ہو کر بھی کچی جماعت والوں کے ساتھ بھاگ جایا کرتے، "تفری ٹیم" یعنی Recess Time۔ مگر ایک دن پکڑے گئے۔خوب دھالائی ہوئی ماسٹر "صابر صاحب" سے۔ وہ ہمشہ بے صبری سے طلبعلم پر اپنے ڈنڈے کا وار کرنے کا انتظار فرمایا کرتے۔ بس اس دن روتے بلکتے گھر پہنچے۔

ان دنوں شائد کرسی صرف استاد کے لئے اجاد ہوئی تھی اس لئے ہم طالبعلم نیچے زمین پر بیٹھا کرتے۔ تختی پر قلم دوات سے "پورنوں" (جسطرح آجکل کے دور میں ٹیچر بچوں کو ڈاٹس لگا کر دیتی ہیں کاپیوں پر) کی مدد سےلکھا کرتے تھے۔ مجھے آج بھی یاد ہے جب میرے ابو میرے لیے تختی لے کر آئے میری چوتھی سالگرہ پر۔ وہ میری پہلی تختی تھی۔بہت سلونی سی، نازنین سی، جوکور جسم والی، ہلکی بھوری رنگت اور اس وقت کی مشہورِ زمانہ "بندوق مارکہ" کمپنی کی اصلی "جاپانی" تختی، رجسٹرڈ نمبر تریاسی نو سو ننیانوے۔۔۔۔۔۔اور جب میں اپنی پیاری سی تختی پر اپنے قلم سے دوات کے اندر "ڈوبے" لگا کر لکھتا تو کئی دفعہ ایک زناٹے دار تھپڑ سیدھا منہ پر آکر پڑتا اور آواز آتی ۔۔۔ "او جنجوعہ صاحب کدی تے سدھی لین تے وی لکھ لیا کرو۔۔۔۔ او گامیاں جائیں نا اتھوں ست ربٹی سوٹا لے کے آ۔۔۔۔" یہ ماسٹر صابر صاحب کی آواز ہوتی تھی۔۔۔بس فیر ہون اگوں رہین دیو۔۔۔
اس دور میں ابھی رومال بھی اجاد نہیں ہوا تھا شائد اسی لیے سب اپنے سر سے قلم کی سیاہی کو صاف کیا کرے۔ اور جب ہم سردیوں میں پووووورے ایک ہفتے کے بعد نہایا کرتے تو سر سے پانی ایسے ٹپکتا جیسے کالے بادل۔ اور تو اور ہر مہینے کی پہلی کو جب فیس جمع کرانے کا دن آتا تو ہمیشہ کی طرح ہمیں فیس لانا بھی یاد نہیں رہتا تھا۔ پھرکیا،ماسٹر "صابر" صاحب فورن دوڑ لگواتے گھرکی۔ گھر پہنچ کر کیونکہ پیاس لگی ہوتی تھی تو پہلے"گلیکسوز ڈی"یا "اینر جائل" کا ایک گلاس چڑھاتے۔



  پھر فورن فیس لےکر استاد صاحب کے قدموں میں۔۔۔۔اور فیس بھی صرف اور صرف "ایک روپیہ"۔ میرے خیال میں شائد اس وقت پڑھائی کے میدان میں بھی ابھی مہنگائی اجاد نہیں ہوئی تھی۔۔۔۔ہک ہا۔۔۔ وہ بچپن۔



اب اپنی قیمتی آراء سے آگاہ کریں فیس بک کے زریعے

8 comments:

  1. یہاں بھی کمنٹ لکھ دوں تا کہ سند رہے اور بوقت ضرورت میں تمہیں دکھا کر کہہ سکوں کہ میرے بلاگ پہ بھی تبصرے والا خانہ موجود ہے۔۔۔۔ :)
    مزہ آ گیا پڑھ کے۔ میں بے ساختہ ہنس پڑا۔۔ انجوائڈ!

    ReplyDelete
  2. yara, msla yeh hai k myn ny visit krna chora wa tha aur likna bhi aj he lihka hai, aur meri jan i will visit your blog, aur sanad walay coments apny pas e rakho :P

    ReplyDelete
  3. پورنے ، بندوق مارکہ تختی ، ست ربٹیا ، اور سر سے قلم صاف کرنا :) کیا کچھ یاد دلا دیا

    ReplyDelete
    Replies
    1. محمد ریاض صاحب بہت بہت شکریہ :) یہ سب کچھ میں نے خود ایکسپیرنس کیا ہوا ہے :)

      Delete

Pageviews